by Atta ur Rehman Qureashi
Published on: Jun 2, 2011
Topic:
Type: Short Stories

ہر کسی کو معلوم ہے کہ تمبا کو نوشی موت کی طرف لے کر جا رہی ہے سگریٹ پینے والا خود تو اس زہر کو اپنے اندر لے کر جا رہا ہے مگر ساتھ ساتھ وہ یہ زہر اردگرد دوسرے لوگوں کو بھی منتقل کر رہا ہے۔ اس سے دوسرے لوگوں کو بھی اتنا ہی نقصان ہو رہا ہے جتنا پینے والے کو۔ پبلک ٹرانسپورٹ ہو یا پبلک مقامات، ریلوے استیشن ہو یا ائرپورٹ ہر جگہ پر سگریٹ نوشی ہو رہی ہے اور ان مقا مات پر لوگ اثر انداز ہو رہے ہیں۔
جگہ جگہ تمباکو کی تشہیر ہو رہی ہے کمپنیاں مختلف انداز میں پراڈکٹ کی تشہیر کر رہی ہیں ان کو روکنے والا کو ئی نہیں۔ تعلیمی اداروں کی حدود میں سگریٹ فروخت ہو رہے ہیں حالانکہ تعلیمی ادروں کے اردگرد پچاس میٹر تک سگریٹ کی فروخت پر پابندی ہے۔ مگر حلات اس کے بر عکس ہیں۔ اسی طرح اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو سگریٹ فروخت کرنا جرم ہے مگر جس دوکان پر جائیں بچوں کو سگریٹ فروخت ہو رہے ہوتےہیں۔اسی طرح شیشہ بھی عام ہو رہا ہے اس کو برا نہیں سمجھا جاتا ریسٹورنٹ پر جا کر شیشہ کی ڈیمانڈ کریں تو آپ با آسانی مل جاتا ہے۔کچھ لوگ سگریٹ کو اسٹا ئیل سمجھ کر تے ہیں۔سگریٹ نوشی کی روک تھام کا قانون موجود ہے۔ مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ابھی تک کوئی نہیں جانتا کہ اس پر عمل در آمد کون کرائے گا۔کیا یہ قانون صرف فا ئلوں تک محدود ہے یا یہ کبھی فائلوں سے باہر آئے گا اور اس پر کون عمل درآمد کرئے گا۔
سگریٹ نوشی کی روک تھام اور اس کی تشہیر کو روکنے کے لیے سی تی سی پاکستان , فرض اسوسی ایشن آف ریہبیلٹیشن اینڈ ڈویلپمنٹ ایک مثبت کردار ادا کر رہاہے مگر کوئی بھی ادارہ کسی حد تک کام کرسکتا ہے۔ اصل زمہ داری گورنمنٹ کی ہے کہ وہ اس قانون کو نا فظ کرائے


« return.